مالاکنڈ میں تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاث

مالاکنڈ ڈویژن میں گرلز سکولوں میں بم دھماکوں کا آغاز سب سے پہلے شورش زدہ ضلع سوات میں ہوا۔ صوبہ سرحد کے اضلاع دیر پائین اور دیر بالا میں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو بم دھماکوں میں نشانہ بنانے کے واقعات سے علاقے میں خواتین کی تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں جبکہ مقامی لوگ ان واقعات کو علاقے میں طالبانئزیشن کی شروعات قرار دے رہے ہیں۔ ویسے تو مالاکنڈ ڈویژن میں گرلز سکولوں میں بم دھماکوں کا آغاز سب سے پہلے شورش زدہ ضلع سوات میں ہوا تاہم وہاں صوبہ سرحد کی حکومت اور مقامی طالبان کے مابین امن معاہدہ طے پانے کے بعد یہ سلسلہ فوری طورپر تو رک گیا ہے لیکن اب یہ کاروائیاں سوات سے ملحق دیر کے دو اضلاع میں منتقل ہوگئی ہیں۔ دیر کے دونوں اضلاع میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پانچ مختلف بم دھماکے ہوچکے ہیں جن میں سے پہلے دو واقعات پہاڑی ضلع دیر بالا میں لڑکیوں کے سرکاری سکولوں میں ہوئے جبکہ دیگر تین وارداتیں دیر پائین میں پیش آئیں۔ ان میں آخری بم دھماکہ چار دن قبل ایجوکیٹر نامی ایک نجی مخلوط تعلیمی ادارے میں پیش آیا جو تیمرگرہ میں واقع ہے۔ یہ سکول پاکستان میں نجی سکول سسٹم کا مشہور ادارہ بیکن ہاؤس کا ایک منصوبہ ہے۔ ایجوکیٹر پبلک سکول کے پرنسپل ثناء الحق قاضی نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے سے سکول کی عمارت مکمل طورپر ناکارہ ہوگئی ہے اور جس سے تقریباً ایک کروڑ روپے کا نقصان بھی ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہمارا مخلوط تعلیمی ادارہ تھا اسی وجہ سے اسے نشانہ بنایا گیا بلکہ یہاں تو طلبہ وطالبات کے کئی ایسے ادارے ہیں جہاں لڑکے لڑکیاں اکھٹے پڑھتے ہیں۔ ان کے بقول ’ یہ تو ملک میں شدت پسندی کی ایک لہر چل پڑی ہے جس کا اثر ہمارے صوبے میں زیادہ ہے اور ہم بھی اسی چیز کا شکار ہوئے ہیں۔‘ طالبان کی طرف سے مسجدوں پمفلٹ تقسیم کئے گئے جس میں کہا گیاکہ یہ حملے علاقے میں مبینہ ’ فحاشی اور عریانی’ کو روکنے کےلئے کئے جارہے ہیں۔ ایجوکیٹر سکول میں بم دھماکے کے بعد علاقے میں سخت خوف وہراس اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔ لوئر دیر میں تقریباًً تمام نجی تعلیمی ادارے غیر اعلانیہ اور غیر معینہ مدت تک بند ہوگئے ہیں جبکہ سکولوں کا سٹاف بھی گھروں کو چلے گئے ہیں۔ لوئر دیر میں ایک نجی سکول کے استاد کلیم اللہ کاکہنا ہے کہ سکولوں پر حملوں سے تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں جبکہ دوسری طرف حکومتی ادارے اور قانون نافذ کرنے اہلکار بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ اب تک پانچ سکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن نہ تو یہ معلوم کیاجا سکا کہ یہ حملے کون لوگ کر رہے ہیں اور نہ کوئی حملہ آوار تاحال پکڑا گیا ہے ، بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمیں زبردستی پستی کی طرف دھکیلا جارہا ہو۔‘ کلیم اللہ کے مطابق ’ یہ اصل میں دیر میں طالبانئزیشن کا آغاز ہے۔اس سے پہلے یہاں اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا لیکن ہم بھی میدان چھوڑنے والے نہیں۔ ہم نہ تو سکول بند کرینگے اور نہ لڑکیوں کو سکول بھیجنا بند کرینگے۔‘ دیر بالا میں ہونے والے دو دھماکوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے مبینہ طورپر قبول کرلی تھی ۔ چند دن پہلے تحریک کی طرف سے مسجدوں پمفلٹ تقسیم کئے گئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ یہ حملے علاقے میں مبینہ ’ فحاشی اور عریانی’ کو روکنے کےلئے کئے جارہے ہیں۔ پمفلٹ کے مطابق جو کوئی انتظامی افسر، خان ملک یا کوئی اور بااثر شخص اس کی مزاحمت کرے گا تو پھر وہ اللہ اور طالبان کے دوشمنی کےلئے تیار ہوجائے۔ دیر کے ایک مقامی صحافی سید امجد علی شاہ نے بتایا کہ دو روز قبل دیر میں مقامی مشران کا ایک جرگہ بھی منعقد ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے اس میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی انتظامیہ کی طرح علاقے کے مشران بھی سکولوں پر حملوں کوروکنے اوراس مسلے کے حل میں بظاہر کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ تاہم دیر کے ضلعی پولیس افسر سید فدا حسین شاہ کہتے ہیں کہ ان دھماکوں میں مقامی عسکریت پسند ملوث نہیں بلکہ یہ کام ان لوگوں کا ہوسکتا ہے جو مالاکنڈ ڈویژن میں جاری امن کے عمل کو سبو تاژ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ان کی واقعات کی تحقیقات کی جارہی ہے جبکہ مزید حملوں کے روک تھام کےلئے بھی سکیورٹی کے اقدامات کئے گئے ہیں۔ دیر میں لڑکیوں کی شرح تعلیم پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں حالیہ بم دھماکوں سے خواتین کی شرح تعلیم میں مزید کمی کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔