کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ
ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں گورنر نریندر ناتھ ووہرا نے مقامی اسمبلی کو تحلیل کر کے حکومت اور قانون سازی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔
گزشتہ ہفتےشری امرناتھ شرائن بورڑ کے معاملے پر کانگریس کی قیادت والی مخلوط حکومت میں شریک ایک اہم پارٹی اقتدار سے الگ ہوگئی اور سات جولائی کو وزیر اعلیٰ مستعفی ہوگئے تھے۔
آئینی ماہرین کے خیال میں ہندوستان میں جموں کشمیر واحد ریاست ہے جس کا علیحدہ آئینی نظام ہے، جس کے تحت وزیر اعلیٰ ایوان کا اعتماد کھو دے اور دوسری کوئی جماعت اکثریت کی حمایت نہ حاصل کر پائے تو صوبے میں گورنر راج نافذ ہوجاتا ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے اکتیس سالہ عرصہ میں یہ پانچویں دفعہ ہے کہ صوبے میں اسمبلی تحلیل ہوگئی ہے اور گورنر نے اقتدار کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے ہیں۔
آئینی ماہرین کے خیال میں ہندوستان میں جموں کشمیر واحد علاقہ ہے جس کا علیحدہ آئینی نظام ہے، جس کے تحت وزیر اعلیٰ ایوان کا اعتماد کھو دے اور دوسری کوئی جماعت اکثریت نہ جٹا پائے تو دفعہ بانوے کے تحت صوبے میں گورنر راج نافذ ہوجاتا ہے
بائیس سال قبل جب اُس وقت کے وزیراعلیٰ جی ایم شاہ کی حکومت سے کانگریس نےحمایت واپس لی، تو صوبے میں گورنر جگموہن نے نظام حکومت سنبھالا۔ اس کے ایک سال بعد یعنی دسمبر اُنیس سو اٹھاسی میں کشمیر میں مسلح شورش کا آغاز ہوا۔
کشمیر کے مقامی آئین پر گہری نظر رکھنے والے سابق وزیر محمد شفیع نے بی بی سی کو بتایا ’یہ گورنر راج ہمارے آئین کی دفعہ بانوے کے تحت صرف چھ ماہ کے لئے ہوتا ہے اور اگر تب تک کوئی جمہوری حل دستیاب نہ ہو تو صدر راج کے لئے میدان ہموار ہوجاتا ہے۔‘
قابل ذکر بات ہے کہ صوبے میں یہ سیاسی بحران اس وقت رونما ہوا جب اسمبلی کی مدت میں چار ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا تھا، اور اکتوبر میں انتخابات ہونے والے تھے۔
موجودہ سیاسی بحران دراصل چھبیس مئی کو جاری کئے ایک سرکاری حکمنامے کی وجہ سے پیدا ہوا، جس کی رو سے امر ناتھ شرائن بورڑ کو آٹھ سو کنال زمین منتقل کردی۔ اس پر عوامی سطح پر زبردست احتجاجی تحریک چلائی گئی، جبکہ حکومت میں کانگریس کی شریک پی ڈی پی اقتدار سے الگ ہوگئی
مسٹر شفیع کا کہنا ہے’اب یہ گورنر کا اختیار ہے کہ وہ انتخابات کو وقت پر ہی مکمل کرنا چاہے یا ان میں تاخیر کرے۔‘
موجودہ سیاسی بحران دراصل چھبیس مئی کو جاری کئے ایک سرکاری حکمنامے کی وجہ سے پیدا ہوا، جس کی رو سے حکومت نے جنوبی کشمیر میں ہندوؤں کی امرناتھ گھپا کے گرد تعمیرات کی خاطر امر ناتھ شرائن بورڑ کو آٹھ سو کنال زمین یعنی سو 100 ایکٹر منتقل کردی۔ اس پر عوامی سطح پر زبردست احتجاجی تحریک چلائی گئی، جبکہ حکومت میں کانگریس کی شریک پی ڈی پی اقتدار سے الگ ہوگئی۔
حکومت نے حکمنامہ واپس لے لیا جس پر جموں کے ہندواکثریتی علاقوں میں کشیدگی پھیل گئی تو وادی میں مسلمانوں کے درمیان خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بالآخر وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد سات جولائی کو مستعفی ہوگ