عسکریت پسندی میں اضافہ، ملِکوں کی پسپائی
یہ چند برس پہلے تک قبائلی علاقوں میں کافی با اثر اور با اختیار تھے۔ حکومت بھی قبائل سے لین دین انہی کے ذریعے کیا کرتی تھی۔ لیکن اب ایک ایک کرکے وہ یا تو حکومت کے حامی ہونے کے الزام میں مارے گئے، کمزور حکومتی رٹ کے تناظر میں انہوں نے خاموشی میں بھلا جانا یا پھر انہوں نے وفاداری ہی تبدیل کر لی۔
یہ قبائلی علاقوں کے ملک تھے جو آج کل ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ علاقے میں عسکریت پسندی میں اضافے سے یہ ملِک پسپا ہوئے ہیں۔ ایسی ہی ایک تازہ پسپائی اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک ملک نے گزشتہ دنوں اختیار کی ہے۔
غلجو سے تعلق رکھنے والے ملک ظلمان شاہ نے علاقے میں شدت پسندوں کی آمد کے موقع پر ان کی مخالفت کی، ان کے خلاف جرگے کیے لیکن پھر ان پر ایک حملہ ہوا، وہ شدید زخمی ہوئے جس کے بعد انہوں نے مقامی شدت پسندوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔
اپنی کہانی خود سناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے انہیں نہیں معلوم تھا کہ طالبان تو امن پسند لوگ ہیں۔ ’جب سے مقامی طالبان آئے ہیں انہوں نے ڈاکوں اور قاتلوں کا صفایا کر دیا ہے۔ ایجنسی میں امن آیا ہے اور میں طالبان سے بہت خوش ہوں۔‘
ربیہ خیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملک ظلمان شاہ نے اس سال جنوری میں طالبان مخالف ایک جرگے میں شدت پسندوں کی مدد کرنے اور انہیں پناہ دینے پر جرمانے اور دیگر سزائیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اب ان کی شاید ضرورت نہیں پڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکومتی اہلکاروں سے جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں میں اضافے کی بار بار شکایت کی لیکن ان پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ ’سکیورٹی اہلکار بھی جرائم پیشہ لوگوں سے ملے ہوئے تھے۔‘
انہوں نے پولیٹکل انتظامیہ کی ناکامی کی بھی شکایت کی۔