حکومت کے دعوے، غریبوں کے خدشات

قدرے گرم مئی کی پہلی تاریخ کی ایک شام پانچ بجے کا وقت ہے اور اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقے ایف سیون کی ایک سڑک کنارے دو درجن مزدور اپنی گینتیاں، بیلچے اور دیگر اوزار سجائے روزگار کی امید پر بیٹھے ہیں۔ حیرت نہ تو مہنگے علاقے اور نہ نوجوان مزدوروں پر ہوئی اگر ہوئی تو صرف اس وقت پر۔ اس قسم کے کام کے متمنی مزدور تو تقریباً ہر شہر میں دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ اکثر صبح کے وقت نظر آتے ہیں؟ پھر یہ شام کے وقت کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ صوبہ سرحد کے دور دراز علاقے دیر کے ایک بائیس سالہ نوجوان صابر علی نے بتایا کہ وہ صبح سے ایک ’دیہاڑی‘ لگا چکے ہیں اور اب دوسری کی تلاش میں ہیں۔ وجہ ظاہر تھی بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ ’دو سو روپے دیہاڑی میں گزارا کہاں ہوتا ہے؟ شادی شدہ نہیں لیکن گھر پر پانچ افراد ہیں جن کا پیٹ بھرنا، خیال رکھنا ہے بغیر کسی سوال کے وہ اپنی بپتا خود ہی سنانے لگا۔ ’غریبی ہے کیا کریں۔ ایک دیہاڑی سے گزارا نہیں ہوتا۔ قسمت کی بات ہے نہ کبھی کبھی تو کئی کئی روز تک کام نہیں ملتا‘۔ اسلام آباد کی بعض سڑکوں پر صابر علی جیسے درجنوں مزدور کام کی تلاش میں منتظر نظر آتے ہیں۔ دھوپ ہو یا بارش، آندھی ہو یا طوفان یہ باقاعدگی سے مخصوص مقامات پر برسوں سے جمع ہوتے ہیں۔ اب تک انہیں منظم کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ انہی نوجوان مزدوروں میں صوبہ سرحد میں حکمراں عوامی نیشنل پارٹی کی سرخ ٹوپی پہنے اثر خان بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے لیے محبت اپنی جگہ لیکن سرحد میں کام بھی نہیں اور مہنگائی بھی ہے۔ میرے سوال کا جواب اس نے ہنس کر یہ دیا کہ نئی حکومت غربت ختم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن اسے خدشہ ہے کہ غریبوں کو ہی ختم کرے گی۔ اس نے نئی حکومت کی جانب سے ماہانہ تنخواہ کم از کم چھ ہزار روپے کرنے کی خبر ابھی تک نہیں سنی۔ تاہم ایک اور مزدور خالد مسعود نے کہا کہ اس اعلان کا ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ ’ایک دن کام ملا تو دو دن نہیں‘۔ محنت کش جہاں بھی ہے اسے مشکلات درپیش ہیں۔ اس کا اعتراف خود وفاقی وزیر حاجی غلام احمد بلور نے اسلام آباد میں جمعرات کو ایک تقریب میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی نے ان محنت کشوں سے ان کا جینے کا حق چھینا ہے۔ ’جب اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں ان حکمرانوں نے ان سے ان کا جینے کا حق چھین لیا ہے۔ وہ بے علاج مارے جاتے ہیں ان کا کوئی پوچھے والا نہیں‘۔ مزدورں کی مشکلات کا احساس شاید سب کو ہے لیکن اس میں کمی کیسے لائی جائے اس پر ہر کوئی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگاتا ہے۔