’شام میں جا بجا تاریخ بکھری پڑی ہے‘
دمشق کی حدود میں داخل ہوتے ہی جہاز نے بلندی سے زمین کی جانب سفر شروع کیا تو کھڑکی سے مجھے ایک بےآب و گیاہ دشت کے درمیان ایک شہر نظر آیا۔
جہاز سے اتر کر دوسرے مسافروں کے ساتھ بس میں کھڑے ہو کر ہوائی اڈے کی عمارت تک جاتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ شام اس قدر قدیم ملک ہونے کے باوجود جدید سہولتوں سے ابھی خاصا دور ہے۔
تھوڑی دیر میں ہماری گاڑی دمشق کی پختہ سڑکوں کو چھوڑ کر ایک کچے راستے پر ہو لی۔ کچی سڑک پر آویزاں بورڈ پر السیدہ زینب لکھا تھا۔ ہماری منزل دمشق سے چند کلومیٹر دور بستی زینبیہ میں واقع سیدہ زینب کا مزار تھا۔ سیدہ زینب کے مزار کی وجہ سے ہی یہ بستی زینبیہ مشہور ہوگئی۔ ورنہ پہلے اس مقام کا قدیمی نام راویہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں واقع ہوٹل اور مہمان خانے ہمیشہ ہی زائرین سے پر ہوتے ہیں۔ اس چھوٹی سی بستی میں بے شمار بازار اور دکانیں اور ان پر خریداروں کا ہجوم بھی نظر آتا ہے۔ اس سب کے باوجود اسے غریبوں کی بستی کہنا کوئی بےجا نہیں ہوگا۔ زائرین کی ایک بڑی صنعت ہونے کے باوجود لگتا ہےکہ اس قصبے پر حکومت کی نظر التفات پڑی ہی نہیں۔ مجھے تو یہ بستی پچھلی صدی کا کوئی قصبہ لگا۔
عراق میں امریکی حملے کے بعد کربلا و نجف سے جان بچا کر آنے والوں کے بعد تو یہاں کے مسائل اور بھی گھمبیر ہوئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق عراق میں لگی جنگ کے شعلوں سے بچنے کے لیے یوں تو لاکھوں عراقی شام میں داخل ہوئے مگر ان میں سے ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ صرف اس بستی میں مقیم ہوئے۔
اس وجہ سے مقامی شامیوں اور عراقیوں کے درمیان کچھ کشیدگی کے بھی آثار ہیں کیونکہ قدرے متمول عراقیوں نے آ کر مقامی کاروبار سنبھال لیے ہیں۔ علاقے میں مانگنے والوں کی بھی خاصی تعداد نظر آئی۔ ہوٹل سے باہر نکل کر حرم سیدہ زینب تک راستے میں بہت سے بچے اور بڑے بھی ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے۔ جن میں یقیناً کئی پیشہ ور ہوتے تھے جبکہ کئی سوال کرنے والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ نجف اور کربلا سے لٹ پٹ کر آئے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی کی مدد کر دی تو بھی دل مطمئن نہیں ہوا اور اگر بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کر دیا تو بھی دل کا بوجھ بڑھ جاتا تھا۔میں تو عجب سے احساس ندامت کے ساتھ واپس آئی۔
مجھ تو ملک شام یوں لگتا ہے جیسے نہ صرف اسلام بلکہ قبل از مسیح ادوار کی تاریخ بکھری پڑی ہو۔ جہاں بھی گئے تاریخ کا کو ئی نہ کوئی باب دیکھنے کو ملا۔ شام کے مضافات میں کوہ رقیم پر اصحاب کہف، جنوب کی جانب نکل جائیے تو انتہائی قدیمی قبرستان’باب صغیر‘ جہاں عالم اسلام کے پہلے موذن حضرت بلال، ’ام المومنین‘ ام سلمٰی اور ام حبیبہ اور کئی صحابی رسول و اہلبیت کی قبریں ہیں۔ مغرب میں حضرت آدم کے مقتول صاحبزادے حضرت ہابیل کی طویل قبر اور شمالی شہر علیپو جو دمشق جتنا ہی قدیم ہے اور جہاں قبل از مسیح کے کھنڈرات بھی موجود ہیں جو غیر مسلم سیاحوں کے لیے بھی باعث دلچسپی ہیں۔
خود دمشق کا بازار حمیدیہ۔ دو رویہ دکانوں اور پختہ چھت تلے یہ طویل و قدیم ترین بازار بنو امیہ دور حکومت میں صنعت و حرفت کا بڑا مرکز ہوا کرتا تھا۔بازار حمیدیہ میں داخل ہوتے ہی کتنے ہی منظر آنکھوں میں اترنے شروع ہوگئے۔ میں جیسے ایک دم سے اکسٹھ ہجری میں چلی گئی۔
بہت مستند روایتیں کہتی ہیں کہ بعد از شہادتِ حسین قافلۂ اہلبیت دربار یزید جانے کے لیے اس بازار سےگزرا تو تماش بینوں نے بالا خانے کی کھڑکیوں سے اہلبیت پر صدقے کی کھجوریں پھینکیں۔ اس واقعے کو تیرہ صدیاں گزر چکیں مگر نہ جانے کیوں غیر ارادی طور پر میری نظریں اوپر بنی کھڑکیوں کی جانب اٹھ گئیں۔ جیسے آج بھی وہاں کوئی پتھر یا صدقے کی کھجوریں لیے بیٹھا ہوگا۔ کھڑکیاں موجود مگر بند تھیں۔ آنسووں کی بھیڑ میں طویل بازار کا رستہ کیسے طے ہوگیا پتہ ہی نہیں چلا اور احساس ہوا کہ شیعہ زائرین اس بازار سے کوئی خریداری کیوں نہیں کرتے۔
ان سب ہی مقامات پر خاصے مسلم اور غیر مسلم سیاح بھی نظر آئے اور خاصے سیکولر ماحول میں۔ مغربی جدید لباسوں کے ساتھ ساتھ جلباب اور حجاب پہنے خواتین بھی۔ تاہم شام آنے والے زیادہ تر زواروں کی منزل بی بی زینب کا مزار ہوتا ہے۔ اس مزار کو مقامی طور پر حرم کہا جاتا ہے۔
بیرو ن ممالک سے زائرین کے علاوہ مقامی افراد کی بھی ایک بہت بڑی تعداد لگ بھگ روز ہی یہاں نظر آتی ہے۔ حرم ایک طرح سے سماجی میل ملاپ کا بھی مرکز ہے۔ عموماً پورے پورے خاندان شام کو کھانے پینے کا سامان لیکر مزار کے وسیع و عریض برآمدوں میں جمع ہوجاتے ہیں۔ تلاوت و نماز وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اسی وقت واپس ہوتے ہیں جب حرم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔
اکثر زائرین مزار کے احاطے میں مجلس اور گریہ و زاری میں مصروف رہتے ہیں۔ جن میں زیادہ تعداد ایرانیوں کی ہوتی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں شام میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھنے کے بعد بی بی زینب اور اہلبیتِ رسول کے مزاروں کی حالت بہتر ہوئی ہے۔
حرم زینب کے دروازے سوائے شب جمعرات روزانہ رات آٹھ بجے بند کر دیے جاتے ہیں۔ تاہم حرم کے اندر قبر کی روشنیاں کبھی گل نہیں کی جاتیں۔ روشنیوں کے نور میں نہاتی حضرت زینب کی قبر پر زائرین کو ہرگھڑی آنسوؤں کے پھول نچھاور کرتے دیکھ کر بار ہا مرثیہ کا یہ مصرح میرے ذہن میں گونجتا رہا۔
جب آئی شام کی بستی میں ننگے سر زینب
غریب و مضطر و لاچار نوحہ گر زین